بھارت نے 27 اکتوبر1947 کوسرینگر میںاپنی فوج اتار کرکشمیر پر ناجائزقبضہ کیا تھا۔آج 77 سال گزرنے کے بعدبھی بھارت کی 10 لاکھ سے زائد ملٹری و پیراملٹری فورسزوہاں موجود ہیں۔اس عرصے کے دوران لاکھوں لوگ شہید ہوئے، ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے،بڑے پیمانے پر گھروں کو مسمار کیا گیا ، کاروبار اور املاک کو نقصان پہنچا۔ ہزاروںلوگ جیلوں میںہیں، ہزاروں جبری گمشدہ ہیں۔بیشمار کشمیری نوجوان اور بچے بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کی فائرنگ سے آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو ئے ہیں۔
یہ سب کچھ اہل کشمیر کے حوصلے پست نہ کر سکا،تو 5اگست2019 کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور35اے کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کرکے ظلم و ستم کے نئے دور کا آغاز کیا گیا، اس یکطرفہ اقدام کے بعد دو سال سے زائد عرصہ تک وادی کشمیرمسلسل لاک ڈاؤن، کرفیو ، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرایع کی بندش کی زد میں رہی،
اسے دنیا کے سب سے بڑے جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ بھارت کی جیلیں معصوم کشمیریوں سے بھردی گئیں،جب کہ نمایاں سیاسی رہنماآج تک قید اور نظربند ہیں۔ جبر، تشدد اور خوف کے اس ماحول میں اہل کشمیر کی ہمت و استقامت کو سلام ہے کہ انھوں نے بھارتی فسطائیت کے سامنے جھکنے اور حق خودارادیت سے دستبردار ہونے سے انکار کیا۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں،”ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے” کانعرہ لگانے والے نوجوان پاکستانی بن کرزندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
آزادی کشمیر کی جدوجہد تحریک پاکستان سے بھی پہلے کی ہے۔ 1931 میں اس کا تب آغاز ہواتھا جب سری نگر سینٹرل جیل کے باہر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے17 کشمیریوں کو شہید کیا تھا۔اس کے بعد آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے14 اگست 1931 کو یوم کشمیر منایا تھا اور سیالکوٹ جلسہ میں ایک لاکھ افراد سے زائد افراد نے آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔
23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اہل کشمیر نے اس کی حمایت کی، اور اس امید پر جانوں کی قربانی پیش کی کہ برطانوی راج کے خاتمہ کے بعدوہ آزاد پاکستان کا حصہ ہوں گے۔تقسیم برصغیر کے ہر اصول اور فارمولے کے تحت کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھا ، مگر ڈوگرہ مہاراجہ کے جعلی الحاق کا بہانہ بنا کر27 اکتوبر 1947 کوبھارتی فوج نے سری نگرپر قبضہ کیا توکشمیر کی مسلمان اکثریت نے اس جارحیت کو مسترد کر تے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ بھارت کو اپنی شکست نظر آئی تو جنوری 1948 میں اقوام متحدہ جاپہنچا اور وہاںمنظور ہونے والی قرارداد میں اہل کشمیر کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا، لیکن بعد ازاں اس سے مکر گیا، اور آج تک اس سے انکاری ہے۔
ایک صدی ہونے کو آئی ہے، اہل کشمیر تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان وہاں کا سب سے مقبول نعرہ ہے، نوجوانوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شہید ہوں تو ان کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جائے۔سری نگر کی گلیوں میں پاکستان کی جیت اور بھارت کی ہار کا جشن منایا جاتا ہے۔ 14 اگست کو پاکستان کا یوم آزادی اہل کشمیر کے لیے بھی یوم آزادی ہے، جب کہ بھارت کا یوم آزادی اور یوم جمہوریہ ان کے لیے یوم سیاہ ہے۔ نوجوان آج بھی شہادتیں پیش کر رہے ہیں، ایک شہید ہوتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لیے 10 اور تیار ہوتے ہیں۔ ایک برہان وانی شہید ہوا تو ہزاروں برہان وانی میدان میں تھے۔
ایسے وقت میں جب بھارت میں ہندوتوا ذہنیت کی حکمرانی ہے، مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے اسے ضم کر لیا گیا ہے، بھارتی وزرا آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، نریندرمودی کا لہجہ ہتک آمیز ، تکبر اور رعونت سے بھرا ہوا ہے،بھارت نہ صرف کسی قسم کے مذاکرات سے انکاری ہے، بلکہ بلوچستان سے فاٹا تک پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے تمام حربے استعمال کر رہا ہے،پاکستان نے یکطرفہ طور پر کرتارپور کوریڈور معاہدے کی اگلے پانچ سالوں کے لیے تجدید کر دی ہے، اور حکمران اتحاد کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات، تجارت، محبت اور دوستی کی باتیں تسلسل کے ساتھ سامنے آرہی ہیں۔
نواز شریف بھارتی صحافیوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ بھارت سے دوستی اور نریندر مودی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کوبھی وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تجویز دے رہے ہیں۔ آخر اتنی بیتابی کیوں ہے؟ تنازع کشمیر کو نظرانداز کرکے کوئی ملاقات کیونکر ہو سکتی ہے؟ ایسے میں مذاکرات کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور ہمارے جسم کا حصہ ہے، اس پرقومی اتفاق رائے موجود ہے، اسے نظرانداز کر کے اور کشمیریوں کی تمناؤں کا خون کرکے معاملات آگے بڑھیں گے، نہ کامیاب ہوں گے، اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر خطے میں امن اور دوستی کی فضا قائم ہوگی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ’مسئلہ کشمیر‘ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل، یہ کشمیری عوام کا مطالبہ اور پاکستان کا اصولی مؤقف ہے، اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ اس پر معاہدہ ہوا ہے۔ پاکستانی قوم اس کی پشت پر ہے، اور ہر طرح کی مدد کرنے کو تیار ہے، آج بھی اہل کشمیر سے اظہاریکجہتی کے لیے ملک بھر میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے۔
27 اکتوبر کا پیغام یہی ہے کہ حکومت پاکستان ایک فریق کی حیثیت سے اپنی ذمے داری ادا کرے،عالمی سطح پر بھرپور سفارتی مہم کے ذریعے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی ظلم و ستم کو اجاگر کیا جائے۔ عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، او آئی سی، اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کر کے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے تاکہ اہل کشمیر حق خودارادیت کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔